Icon Icon
Showing posts with label verse no.007. Show all posts
Showing posts with label verse no.007. Show all posts

Friday, February 20, 2015

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.007

Surat Al-Baqarah

تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

 (١) گناہوں کی دنیوی سزا سلب توفیق :
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ کفر اور ہر گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی مگر بعض گناہوں کی کچھ سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے پھر دنیا کی سزا بعض اوقات یہ شکل اختیار کرتی ہے کہ اصلاح حال کی توفیق سلب ہوجاتی ہے، انسان آخرت کے حساب وکتاب سے بےفکر ہو کر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں بڑہتا چلا جاتا ہے اور اس کی برائی کا احساس بھی اس کے دل سے جاتا رہتا ہے ایسے حال کے متعلق بعض بزرگوں کا ارشاد ہے ان من جزاء السۃ السیۃ بعدھا وان من جزاء الحسنۃ الحسنۃ بعدھا یعنی گناہ کی ایک سزا یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچ لاتا ہے جس طرح نیکی کا نقد بدلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے،
اور ایک حدیث میں ہے کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور جس طرح سفید کپڑے پر ایک سیاہ نقطہ انسان کو ناگوار نظر آتا ہے پہلے نقطہ گناہ سے بھی انسان پریشان ہوتا ہے لیکن اگر اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی اور دوسرا گناہ کرلیا تو ایک دوسرا نقطہ سیاہ لگ جاتا ہے ، اور اسی طرح ہر گناہ پر سیاہ نقطے لگتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ سیاہی سارے قلب پر محیط ہوجاتی ہے، اور اب اس کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ نہ کسی اچھی چیز کو اچھا سمجھ سکتا ہے نہ بری چیز کو برا غرض نیکی بدی کا امتیاز اس کے دل سے اٹھ جاتا ہے اور پھر فرمایا کہ اسی ظلمت وسیاہی کا نام قرآن کریم میں ران یا راین آیا ہے كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (مشکوٰۃ ازمسند احمد وترمذی ) اور ترمذی نے سند صحیح کے ساتھ بروایت ابوہریرہ نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرلے جو صاف ہو جاتا ہے (قرطبی) 
(٢) نصیحت ناصح کے لئے ہر حال میں مفید ہے مخاطب قبول کرے یا نہ کرے:
اس آیت میں ازلی کافروں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا وعظ ونصیحت کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر قرار دئیے گئے ہیں مگر ان کے ساتھ علیہم کی قید لگا کر بتلا دیا کہ یہ برابری کفار کے حق میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حق میں نہیں بلکہ ان کو تو تبلیغ وتعلیم اور اصلاح خلق کی کوشش کا ثواب بہرحال ملے گا اسی لئے پورے قرآن کریم کی کسی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایسے لوگوں کو بھی دعوت ایمان دینے سے روکا نہیں گیا اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دعوت دین اور اصلاح کا کام کرتا ہے خواہ مؤ ثر ہو یا نہ ہو اس کو بہرحال اپنے عمل کا ثواب ملتا ہے،
ایک شبہ کا جواب:
اس آیت کا مضمون وہی ہے جو سورۃ مطففین کی اس آیت کا ہے كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (١٤:٨٣) یعنی ایسا نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے زنگ بیٹھ گیا ہے جس میں حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ان بداعمالیاں اور سرکشی ہی ان کے دلوں کا زنگ بن گیا ہے اسی زنگ کو آیت مذکورہ میں مہر یا پردہ کے لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے اس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ان کے دلوں پر مہر کردی اور جو اس کو ماؤف کردیا ہے تو یہ اپنے کفر میں معذور ہوگئے پھر ان کو عذاب کیسا ؟وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے شرارت وعناد کر کے باختیار خود اپنی استعداد برباد کرلی ہے اس لئے اس تباہی استعداد کے فاعل اور مسبب یہ خود ہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے تمام افعال کے خالق ہونے کی حیثیت سے اس جگہ مہر کرنے کو اپنی طرف نسبت کر کے یہ بتلادیا کہ جب ان لوگوں نے قبولِ حق کی صلاحیت واستعداد کو اپنے اختیار سے تباہ کرنا چاہا تو سنت الٓیہ کے مطابق ہم نے وہ بد استعداد کی کیفیت ان کے قلوب اور حواس میں پیدا کردی ۔

                            www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk


Read More
© Life 4 Islam All rights reserved | Designed By Blogger Templates