Icon Icon

Friday, February 20, 2015

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.003

Surat Al-Baqarah


تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

 (آیت) الَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ:
یعنی خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں کہ یقین کرتے ہیں بےدیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو، اور جو ہم نے روزی دی ہے اس سے کچھ خرچ کرتے ہیں ، 
اس آیت میں متقین کی تین صفات بیان کی گئی ہیں : ایمان بالغیب ، اقامت صلوٰۃ ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اس کے ضمن میں بہت سے اہم مسائل آگئے ہیں ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے،
پہلا مسئلہ ایمان کی تعریف:
ایمان کی تعریف کو قرآن کریم نے يُؤ ْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ کے صرف دو لفظوں میں پورا بیان کردیا ہے لفظ ایمان اور غیب کے معنی سمجھ لئے جاویں تو ایمان کی پوری حقیقت اور تعریف سمجھ میں آجاتی ہے،
لغت میں کسی کی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے اسی لئے محسوسات ومشاہدات میں کسی کے قول کی تصدیق کرنے کو ایمان نہیں کہتے مثلا شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق کرتا ہے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس تصدیق میں قائل کے اعتماد کو کوئی دخل نہیں بلکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بناء پر ہے اور اصطلاح شرع میں خبر رسول کو بغیر مشاہدہ کے محض رسول کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے لفظ غیب لغت میں ایسی چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جو بدیہی طور پر انسان کو معلوم ہوں، اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگا سکیں یعنی نہ وہ آنکھ سے نظر آئیں نہ کان سے سنائی دیں، نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کر ان کا علم ہوسکے اور نہ ہاتھ سے چھو کر ان کو معلوم کیا جاسکے،
قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اور حواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات بھی آجاتی ہیں تقدیری امور جنت ودوزخ کے حالات ، قیامت اور اس میں پیش آنیوالے واقعات بھی ، فرشتے، تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقین بھی جس کی تفصیل اسی سورۃ بقرہ کے ختم پر اٰمَنَ الرَسُول میں بیان کی گئی ہے گویا یہاں مجمل کا بیان ہوا ہے اور آخری آیت میں ایمان مفصل کا،
تو اب ایمان بالغیب کے معنے یہ ہوگئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جو ہدایات وتعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے (عقیدہ طحاوی عقائدنسفی وغیرہ ) 
اس تعریف میں ماننے کا نام ایمان بتلایا گیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض جاننے کو ایمان نہیں کہتے کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے وہ تو ابلیس وشیطان اور بہت سے کفار کو بھی حاصل ہے کہ ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صدق کا یقین تھا مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مومن نہیں ، 
دوسرا مسئلہ اقامت صلو ٰۃ :
اقامت کے معنی محض نماز پڑھنے کے نہیں بلکہ نماز کو ہر جہت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام اقامت ہے جس میں نماز کے تمام فرائض ، واجبات ، مستحبات ، اور پھر ان پر دوام والتزام یہ سب اقامت کے مفہوم میں داخل ہیں اور صحیح یہ ہے کہ اس جگہ نماز سے کوئی خاص نماز مراد نہیں بلکہ فرائض وواجبات اور نفلی نمازوں کو یہ لفظ شامل ہے خلاصہ مضمون یہ ہوا کہ وہ لوگ جو نمازوں کی پابندی بھی قواعد شرعیہ کے مطابق کرتے ہیں ، اور ان کے پورے آداب بھی بجا لاتے ہیں،
تیسرا مسئلہ ! اللہ کی راہ میں خرچ کرنا:
اس میں بھی صحیح اور تحقیقی بات جس کو جمہور مفسّرین نے اختیار فرمایا ہے یہی ہے کہ ہر قسم کا وہ خرچ داخل ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے خواہ فرض زکو ٰۃ ہو، یا دوسرے صدقات واجبہ یا نفلی صدقات وخیرات، کیونکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ انفاق استعمال ہوا عموماً نفلی صدقات میں یا عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے زکوٰۃ فرض کے لئے عموماً لفظ زکوٰۃ ہی آیا ہے،
اس مختصر جملہ میں لفظ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ پر غور کیجئے تو ایک یہ لفظ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ایک قوی داعیہ شریف انسان کے دل میں پیدا کردیتا ہے کہ جو کچھ مال ہمارے پاس ہے یہ سب خدا ہی کا عطا کیا ہوا اور اسی کی امانت ہے، اگر ہم اس تمام مال کو بھی اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لئے خرچ کردیں تو حق اور بجا ہے اس میں بھی ہمارا کوئی احسان نہیں ، 
جان دی ہوئی اسی کی تھی ، 
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا،
اس پر مزید اضافہ لفظ مِمَّا نے کردیا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دیئے ہوئے مال کو بھی پورا خرچ کرنا نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ خرچ کرنا ہے،
یہاں متقین کی صفات کا بیان کرتے ہوئے اول ایمان بالغیب کا ذکر فرمایا گیا پھر اقامت نماز اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ایمان کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے کہ وہی اصل الاصول اور سارے اعمال کی مقبولیت کا دارومدار ہے لیکن جب ایمان کے ساتھ اعمال کا بیان کیا جائے، تو ان کی فہرست طویل اور فرائض وواجبات کی تعداد کثیر ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال میں سے صرف دو عمل نماز اور انفاق مال کے ذکر پر اکتفا کرنے میں کیا راز ہے؟
اس میں غالبا اسی طرف اشارہ ہے کہ جتنے اعمال انسان پر فرض یا واجب ہیں ان کا تعلق یا انسان کی ذات اور بدن سے ہے یا اس کے مال سے بدنی اور ذاتی عبادات میں سب سے اہم نماز ہے، اس کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا اور مالی عبادات سب کی سب لفظ انفاق میں داخل ہیں ، اس لئے درحقیقت یہ تنہا دو اعمال کا ذکر نہیں بلکہ تمام اعمال وعبادات ان کے ضمن میں آگئے اور پوری آیت کے یہ معنی ہوگئے کہ متقین وہ لوگ ہیں جن کا ایمان بھی کامل ہے اور عمل بھی اور ایمان وعمل کے مجموعہ کا نام ہی اسلام ہے گویا اس آیت میں ایمان کی مکمل تعریف کے ساتھ اسلام کے مفہوم کی طر ف بھی اشارہ ہوگیا اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس جگہ اس کی بھی وضاحت کردی جائے کہ ایمان اور اسلام میں کیا فرق ہے؟
ایمان اور اسلام میں فرق :
لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اسلام اطاعت وفرمانبرداری کا، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا بھی قلب اور سب اعضاء وجوارح لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعاً اس وقت تک معتبر نہیں جب زبان سے اس تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو،
خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن وحدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں ، 
جب اسلام یعنی ظاہری اقرار وفرمانبرداری کے ساتھ دل میں ایمان نہ ہو تو اس کو قرآن کی اصطلاح میں نفاق کا نام دیا گیا ہے اور اس کو کھلے کفر سے زیادہ شدید جرم ٹھہرایاہے،
(٤:١٤٧) یعنی منافقین جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں رہیں گے،
اسی طرح ایمان یعنی تصدیق قلبی کے ساتھ اگر اقرار واطاعت نہ ہو تو اس کو بھی قرآنی نصوص میں کفر ہی قرار دیا ہے ارشاد يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُم (٢:١٤٦) یعنی یہ کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کی حقانیت کو ایسے یقینی طریق پر جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں ، 
اور دوسری جگہ ارشاد ہے،
وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا (١٤:٢٧) یعنی یہ لوگ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں ان کا یقین کامل ہے اور ان کی یہ حرکت محض ظلم وتکبّر کی وجہ سے ہے،
میرے استاذ محترم حضرت العلاّمہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ ، اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتے تھے کہ ایمان اور اسلام کی مسافت ایک ہے فرق صرف ابتداء اسلام ظاہر عمل سے شروع ہوتا ہے اور قلب پر پہنچ کر مکمل سمجھا جاتا ہے اگر تصدیق قلبی ظاہری اقرار واطاعت تک نہ پہنچنے وہ تصدیق ایمان معتبر نہیں ، اسی طرح اگر ظاہری اطاعت واقرار تصدیق قلبی تک نہ پہنچنے تو وہ اسلام معتبر نہیں ، 
امام غزالی اور امام سبکی کی بھی یہی تحقیق ہے اور امام ابن ہمام نے مسامرہ میں اس تحقیق پر تمام اہل حق کا اتفاق ذکر کیا 
ہے،

                           www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk



Share This

No comments:

Post a Comment

Thanks For Your Feedback

© Life 4 Islam All rights reserved | Designed By Blogger Templates