Icon Icon
Showing posts with label Ayah no. 4. Show all posts
Showing posts with label Ayah no. 4. Show all posts

Friday, February 20, 2015

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.004

Surat Al-baqarah
Ayah No.004

تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

(آیت) وَ الَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ یعنی متقین ایسے ہیں کہ ایمان رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جا چکی ہیں اور آخرت پر بھی وہی لوگ یقین رکھتے ہیں ، 
اس آیت میں متقین کی باقی صفات کا بیان ہے جس میں ایمان بالغیب کی کچھ تفصیل اور ایمان بالآخرت کا ذکر ہے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ عہد رسالت میں مؤمنین متقین دو طرح کے حضرات تھے ایک وہ جو پہلے مشرکین میں سے تھے پھر مشرف باسلام ہوئے دوسرے وہ جو پہلے اہل کتاب یہودی یا نصرانی تھے پھر مسلمان ہوگئے اس سے پہلی آیت میں طبقہ کا ذکر تھا اور اس آیت میں دوسرے طبقہ کا ذکر ہے اسی لئے اس آیت میں قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کی بھی تصریح فرمائی گئی کہ وہ حسب تصریح حدیث دوسرے ثواب کے مستحق ہیں ایک پچھلی کتابوں کے زمانے میں ان پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب دوسرے قرآن کے زمانے میں قرآن پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا آج بھی ہر مسلمان کے لئے لازم ہے فرق اتنا ہے کہ آج ان کتابوں پر ایمان اس طرح ہوگا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں نازل فرمایا تھا وہ سب حق ہے اور اس زمانے کے لئے وہی واجب العمل تھا مگر قرآن نازل ہونے کے بعد چونکہ پچھلی کتابیں اور شریعتیں سب منسوخ ہوگیئں تو اب عمل صرف قرآن ہی پر ہوگا،
مسئلہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل :
آیت کے اس طرز بیان سے ایک اہم اصولی مسئلہ بھی نکل آیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) آخری نبی ہیں اور آپ کی وحی آخری وحی کیونکہ اگر قرآن کے بعد کوئی اور کتاب یا وحی بھی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیت میں پچھلی کتابوں اور وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح آئندہ نازل ہونے والی کتاب اور وحی پر ایمان لانے کا ذکر بھی ضروری ہوتا بلکہ اس کی ضرورت زیادہ تھی کیونکہ تورات وانجیل اور تمام کتب سابقہ پر ایمان لانا تو پہلے سے جاری اور معلوم تھا اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد بھی سلسلہ وحی اور نبوت جاری ہوتا تو ضرورت اس کی تھی کہ اس کتاب اور اس نبی کا ذکر زیادہ اہتمام سے کیا جاتا جو بعد میں آنے والے ہوں تاکہ کسی کو اشتباہ نہ رہے،
مگر قرآن نے جہاں ایمان کا ذکر کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا بعد میں آنے والی کسی وحی یا نبی کا کہیں قطعاً ذکر نہیں پھر صرف اسی آیت میں نہیں بلکہ قرآن کریم میں یہ بھی مضمون اول سے آخر تک مختلف مقامات میں چالیس پچاس آیتوں میں آیا ہے سب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے انبیاء پہلی وحی ، پہلی کتابوں کا ذکر ہے کسی ایک آیت میں اس کا اشارہ تک نہیں کہ آئندہ بھی کوئی وحی یانبی آنے والا ہے جس پر ایمان لانا ہے مثلاً ارشاد ہے:
(١) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ (سورہ نحل :٤٣) (٢) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ (سورہ مومن :٧٨) (٣) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا (سورہ روم :٤) (٤) وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ (سورہ نساء :٦٠) (٥) وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ (سورہ زمر:٦٥) (٦) كَذٰلِكَ يُوْحِيْٓ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ (سورہ شوریٰ :٣) (٧) كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ (سورہ بقرہ :١٨٣) (٨) سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا (سورہ اسرائیل :٧٧) 
ان آیات میں اور ان کی امثال دوسری آیات میں جہاں کہیں نبی یا رسول یا وحی وکتاب بھیجنے کا ذکر ہے سب کے ساتھ مِنْ قَبْلِ اور مِنْ قَبْلِكَ کی قید لگی ہوئی ہے کہیں مِنْ بَعدِ کا اشارہ تک نہیں اگر ختم نبوت اور انقطاع وحی کا دوسری آیات میں صراحۃ ذکر نہ ہوتا تو قرآن کا یہ طرز ہی اس مضمون کی شہادت کے لئے کافی تھا مسئلہ ختم نبوت پر قرآنی تصریحات اور احادیث متواترہ کی شہادت اور امت کا اجماع تفصیل کے ساتھ دیکھنا ہو تو میرا رسالہ ختم نبوت دیکھا جائے،
متقین کی تفسیر میں صفت ایمان بالآخرۃ :
اس آیت میں متقین کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آخرت سے مراد وہ دار آخرت ہے جس کو قرآن میں دارالقرار ، دارالحیوان اور عقبیٰ نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے اور پورا قرآن اس کے ذکر اور اس کے ہولناک حالات سے بھرا ہوا ہے،
آخرت پر ایمان ایک انقلابی عقیدہ ہے:
آخرت پر ایمان لان اگرچہ ایمان بالغیب کے لفظ میں آچکا ہے مگر اس کو پھر صراحۃً اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ اجزائے ایمان میں اس حیثیت سے سب میں اہم جز ہے کہ مقفضائے ایمان پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا اسی کا اثر ہے،
اور اسلامی عقائد میں یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور جس نے آسمانی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو پہلے اخلاق واعمال میں اور پھر دنیا کی سیاست میں بھی تمام اقوام عالم کے مقابلے میں ایک امتیازی مقام عطا فرمایا اور جو عقیدہ توحید ورسالت کی طرح تمام انبیاء اور تمام شرائع میں مشترک اور متفق علیہ چلا آتا ہے،
وجہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی اور اسی کی عیش وعشرت ان کا انتہائ مقصود ہے اسی کی تکلیف کو تکلیف سمجھتے ہیں آخرت کی زندگی اور اعمال کے حساب کتاب اور جزاء وسزا کو وہ نہیں مانتے وہ جب جھوٹ ، سچ اور حلال حرام کی تفریق کو اپنی عیش وعشرت میں خلل انداز ہوتے دیکھیں تو ان کو جرائم سے روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ، حکومت کے تعزیری قوانین قطعاً انسداد جرائم اور اصلاح اخلاق کے لئے کافی نہیں عادی مجرم تو ان سزاؤں کے عادی ہوہی جاتے ہیں کوئی شریف انسان اگر تعزیری سزا کے خوف سے اپنی خواہشات کو ترک بھی کرے تو اسی حد تک کہ اس کو حکومت کی داروگیر کا خطرہ ہو، خلوتوں میں اور راز دارانہ طریقوں پر جہاں حکومت اور اس کے قوانین کی رسائی نہیں ، اسے کون مجبور کرسکتا ہے کہ اپنی عیش وعشرت اور خواہش کو چھوڑ کر پابندیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے،
ہاں وہ صرف عقیدۂ آخرت اور خوف خدا ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت جلوت وخلوت میں یکساں ہوسکتی ہے وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں اور ان پر پہرہ چوکیوں میں اور رات کی تاریکیوں میں بھی کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے کوئی کوئی لکھنے والا میرے اعمال کو لکھ رہا ہے،
یہی وہ عقیدہ تھا جس پر پورا عمل کرنے کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دور میں ایسا پاکباز معاشرہ پیدا ہوا کہ مسلمانوں کی صورت دیکھ کر، چال چلن دیکھ کر لوگ دل وجان سے اسلام کے گرویدہ ہوجاتے تھے، یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اس آیت میں بالاٰخرۃ کے ساتھ یؤ منون نہیں بلکہ یوقنون استعمال فرمایا گیا ہے، کیونکہ ایمان کا مقابل تکذیب ہے، اور ایقان کا مقابل شک وتردد اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی کی محض تصدیق کرنا مقصد کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کا ایسا یقین ضروری ہے جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہو، متقین کی یہی صفت ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کے سامنے پیشی اور حساب کتاب ، پھر جزا وسزا کا نقشہ ہر وقت ان کے سامنے رہتا ہے،
وہ شخص جو دوسروں کا حق غصب کرنے کے لئے جھوٹے مقدمے لڑتا ہے، جھوٹی گواہی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف حرام مال کمانے اور کھانے میں لگا ہوا ہے یا دنیا کے ذلیل مقاصد حاصل کرنے کے لئے خلاف شرع ذرائع اختیار کر رہا ہے، وہ ہزار بار آخرت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور ظاہر شریعت میں اس کو مومن کہا بھی جائے لیکن قرآن جس ایقان کا مطالبہ کرتا ہے وہ اسے حاصل نہیں اور وہ ہی انسان کی زندگی میں انقلاب لانیوالی چیز ہے اسی کے نتیجے میں متقین کو ہدایت اور کامیابی کا وہ انعام دیا گیا ہے جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی پانچویں آیت میں ہے، اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یعنی بس یہی لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب ،

                         www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk


Read More
© Life 4 Islam All rights reserved | Designed By Blogger Templates