Icon Icon
Showing posts with label Aayah No# 006. Show all posts
Showing posts with label Aayah No# 006. Show all posts

Friday, February 20, 2015

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.006

Surat Al-Baqarah


تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

خلاصہ تفسیر 
بیشک جو لوگ کافر ہوچکے ہیں برابر ہے ان کے حق میں خواہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لاویں گے (یہ بات ان کافروں کے متعلق ہے جن کی نسبت خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوگا عام کافر مراد نہیں ان میں بہت سے لوگ بعد میں مسلمان ہوگئے) بند لگا دیا ہے اللہ نے انکے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لئے سزا بڑا ہے،
معارف ومسائل 
خلاصہ مضمون مع ربط ۔
سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں میں قرآن کریم کا کتاب ہدایت اور ہر شک وشبہ سے بالاتر ہونا بیان کرنے کے بعد ان خوش نصیب لوگوں کا ذکر تھا، جنہوں نے اس کتاب ہدایت سے پورا فائدہ اٹھایا جن کو قرآن کی اصطلاح میں مؤمنین اور متقین کا لقب دیا گیا ہے اور ان حضرات کی مخصوص صفات وعلامات بھی بیان کی گئیں اس کے بعد پندرہ آیتوں میں ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس ہدایت کو قبول نہیں کیا بلکہ انکار وعناد سے پیش آئے پھر ان لوگوں میں دو گروہ تھے ایک وہ جنہوں نے کھل کر انکار ومخالفت کا راستہ اختیار کیا جن کو قرآن کی اصطلاح میں کافر کہا گیا دوسرے وہ لوگ جو اپنی اخلاقی پستی اور دنیا کی ذلیل اغراض کی بنا پر یہ جرأت بھی نہ کرسکے کہ ضمیر کی آواز اور دلی عقیدے کو صاف طور پر ظاہر کردیتے بلکہ دھوکہ اور فریب کی راہ اختیار کی مسلمانوں سے یہ کہتے کہ ہم مسلمان ہیں، قرآن اور اس کی ہدایات کو مانتے ہیں تمہارے ساتھ ہیں اور دلوں میں ان کے کفر وانکار تھا کفار کی مجسلوں میں جاکر یہ کہتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور ان کے راز معلوم کرنے کے لئے ہم ان سے ملتے ہیں ، 
اس گروہ کا نام قرآن کی اصطلاح میں منافق ہے یہ پندرہ آیتیں ہیں جو قرآن کو نہ ماننے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں ان میں سے مذکورہ دو آیتوں میں کھلے کافروں کا ذکر ہے اور آگے تیرہ آیتوں میں منافقین کا ذکر اور ان کے متعلقہ حالات وعلامات اور ان کا انجام مذکورہ ہے،
ان تمام آیات کی تفصیل پر یک جائی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نے سورۃ بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ایک طرف تو چشمہ ہدایت کا پتہ دے دیاکہ وہ قرآن ہے اور دوسری طرف تمام اقوام کو اسی ہدایت کے قبول یا انکار کے معیار سے دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک ہدایت یافتہ جن کو مؤمنین ومتقین کہا جاتا ہے دوسرے ہدایت سے انحراف وانکار کرنے والے جن کو کافر یا منافق کہا جاتا ہے ، 
پہلی قسم وہ ہے جن کا راستہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں طلب کیا گیا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جن کے راستہ سے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ میں پناہ مانگی گئی ہے،
قرآن کریم کی اس تعلیم سے ایک اصولی مسئلہ یہ بھی نکل آیا کہ اقوام عالم کے حصوں یا گروہوں میں ایسی تقسیم جو تقسیم جو اصول پر اثر انداز ہوسکے وہ صرف اصول ونظریات ہی کے اعتبار سے ہوسکتی ہے، نسب، وطن ، زبان، رنگ اور جغرافیائی حالات ایسی چیزیں نہیں جن کے اشتراک یا اختلاف سے قوموں کے ٹکڑے کئے جاسکیں ، قرآن کریم کا اس بارے میں واضح فیصلہ بھی سورۃ تغابن میں مذکور ہے،
خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (٢:٦٤) یعنی اللہ نے تم سب کو پیدا کیا ، پھر کچھ لوگ تم میں سے مومن اور کچھ کافر ہوگئے،
مذکور الصدر دو آیتوں میں حق تعالیٰ نے ان کافروں کا ذکر فرمایا ہے جو اپنے کفر وانکار میں ضد اور عناد تک پہنچ گئے تھے اور اس ضد کی وجہ سے وہ کسی حق بات کو سننے اور روشن دلیل کو دیکھنے کے لئے بھی تیار نہ تھے، ایسے لوگوں کے بارے میں سُنّۃ اللہ یہی ہے کہ ان کو ایک سزا اسی جہان میں نقدیہ دی جاتی ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، کانوں ، آنکھوں کو حق وصدق کے قبول کرنے سے بند کردیا جاتا ہے ، ان کا حال حق وصدق کے بارے میں ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا نہ ان کو سمجھنے کی عقل نہ دیکھنے کے لئے آنکھیں نہ سننے کے لئے کان۔ آیت میں ایسے لوگوں کا عذاب عظیم میں مبتلا ہونا ذکر کیا گیا ہے،
کفر کی تعریف :
کفر کے لفظی معنی چھپانے کے ہیں ناشکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے اصطلاح شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ان میں سے کسی چیز کے انکار کا نام کفر ہے مثلاً ایمان کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں اور اس کا ثبوت قطعی ویقینی ہے ان سب چیزوں کی دل سے تصدیق کرنا اور حق سمجھنا اس لئے جو شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ان تعلیمات میں سے جن کا ثبوت یقینی اور قطعی ہے کسی ایک کو بھی حق نہ سمجھے اور اس کی تصدیق نہ کرے وہ کافر کہلائے گا،
اِنذار کے معنیٰ:
لفظ انداز ایسی خبر دینا جس سے خوف پیدا ہو جیسا کہ ابشار ایسی خبر دینے کو کہتے ہیں جس سے سرور پیدا ہو، اردو زبان میں اس کا ترجمہ ڈرانے سے کیا جاتا ہے مگر درحقیقت مطلقاً ڈرانے کو انذار نہیں کہتے بلکہ ڈرانا جو شفقت ورحمت کی بناء پر ہو جیسے اولاد کو آگ سے، سانپ بچھوّ اور درندوں سے ڈرایا جاتا ہے اسی لئے جو ڈاکو، چور ظالم ، کسی انسان کو دھمکاتے ڈراتے ہیں اس کو انذار اور ان لوگوں کو نذیر نہیں کہا جاتا ، انبیاء کو خصوصیت سے نذیر کا لقب دیا جاتا ہے کہ وہ ازراہ شفقت آئندہ آنے والے مصائب سے ڈراتے ہیں انبیاء کے لئے اس لفظ کو اختیار کرنے میں اس کی ہدایت ہے کہ مصلح مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ مخاطب کی خیرخواہی کیساتھ ہمدردی سے گفتگو کرے محض ایک کلمہ پہنچا دینا مقصد نہ ہو،
اس آیت میں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ ضدی اور معاند کفار جو حقیقت کو پہچاننے کے باوجود کفر وانکار پر جمے ہوئے ہیں یا اپنے تکبر اور کج رائی کی بناء پر کسی حق بات کو سننے اور روشن دلائل کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کی اصلاح اور ایمان کے متعلق جو آپ کوشش کرتے ہیں ان کے لئے مؤ ثر ثابت نہ ہوگی بلکہ آپ کا کوشش کرنا اور نہ کرنا ان کے حق میں برابر ہے،
اس کی وجہ اگلی آیت میں یہ بتلائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے سوچنے سمجھنے کے جتنے راستے تھے وہ سب بند ہیں اس لئے ان سے اصلاح کی توقع رکھنا درد سر ہے،
کسی چیز پر مہر اس لئے لگائی جاتی ہے کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے ، ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کا یہی مطلب ہے کہ ان میں قبول حق کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی،
 ان کی اس حالت کو دلوں اور کانوں پر مہر کرنے سے تعبیر فرمایا ہے مگر آنکھوں کے لئے مہر کے بجائے پردہ پڑنے کا ذکر کیا گیا ، اس میں حکمت یہ ہے کہ دلوں میں آنے والا کوئی مضمون یا کوئی فکر وخیال کسی ایک سمت سے نہیں آسکتی ہے ان کی بندش جب ہی ہوسکتی ہے جب ان پر مہر کردی جائے بخلاف آنکھوں کے کہ ان کا ادراک صرف ایک سمت یعنی سامنے سے ہو سکتا ہے اور جب سامنے پردہ پڑجائے تو آنکھوں کا ادراک ختم ہوجاتا ہے (مظہری

              

                           www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk

Read More
© Life 4 Islam All rights reserved | Designed By Blogger Templates