Icon Icon
Showing posts with label Aayah No# 002. Show all posts
Showing posts with label Aayah No# 002. Show all posts

Monday, February 16, 2015

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

                                         AYAH NO. 002

Surah Al-Baqarah


                                               تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

(آیت) ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ لفظ ذٰلِكَ کسی دور کی چیز کی طرف اشارے کے لئے آتا ہے اور كِتٰب سے مراد قرآن کریم ہے، ریب کے معنی شک وشبہ، معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں یہ موقع بظاہر اشارۂ بعید کا نہیں تھا کیونکہ اسی قرآن کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو لوگوں کے سامنے ہے مگر اشارۂ بعید سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی تھی یہ سارا قرآن اس درخواست کا جواب بصورت قبولیت اور صراط مستقیم کی تشریح وتفصیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے یہ دعا سن لی اور قرآن کریم بھیج دیا جو ہدایت کا آفتاب ہے جو شخص ہدایت چاہتا ہے وہ اس کو پڑھے سمجھے اور اس کے مقتضٰی پر عمل کرے ، 

اور پھر اس کے متعلق ارشاد ہے کہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کیونکہ کسی کلام میں شک وشبہ کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ خود کلام میں غلطی ہو تو وہ کلام محل شک وشبہ ہو جاتا ہے دوسرے یہ کہ سمجھنے والے کی فہم میں غلطی ہو، اس صورت میں کلام محلِ شک وشبہ نہیں ہوتا گو کج یا کم فہمی کی وجہ سے کسی کو شبہ ہوجائے جس کا ذکر خود قرآن کریم میں چند آیتوں کے بعد ان کنتم فی ریبٍ میں آیا ہے، اس لئے ہزاروں کم فہموں یا کج فہموں کے شبہات واعتراضات کے باوجود یہ کہنا صحیح ہے کہ اس کتاب میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں



ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لئے یعنی مخصوص ہدایت جو نجات آخرت کا ذریعہ بنے وہ متقین ہی کا حصہ ہے اگرچہ قرآن کی ہدایت نہ صرف نوع بشر کے لئے بلکہ تمام کائنات عالم کے لئے عام ہے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے کہ ہدایت کے تین درجے ہیں ایک درجہ تمام نوع انسان بلکہ تمام حیوانات وغیرہ کے لئے بھی عام اور شامل ہے دوسرا درجہ مؤمنین کے لئے خاص اور تیسرا درجہ مقربین خاص کے لئے مخصوص ہے پھر اس کے درجات کی کوئی حد وانتہاء نہیں قرآن کریم کے مختلف مواقع میں کہیں ہدایت عامہ کا ذکر آیا ہے کہیں ہدایت خاصہ کا اس جگہ ہدایت ذکر ہے اس لئے متقین کی تخصیص کی گئی ہے اس پر یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہدایت کی زیادہ ضرورت تو ان لوگوں کو ہے جو متقی نہیں کیونکہ مذکورہ تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ اس جگہ متقین کی خصوصیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن غیر متقی لوگوں کے لئے ہدایت نہیں ہے،

متقین کی خاص صفات :

اس کے بعد دو آیتوں میں متقین کی مخصوص صفات وعلامات بیان کر کے یہ بتلادیا گیا ہے کہ یہ جماعت ہدایت یافتہ ہے انھیں کا راستہ صراط مستقیم ہے جس کو سیدھا راستہ مطلوب ہو اس جماعت میں شامل ہوجائے ان کے ساتھ رہے ان کے عقائد ونظریات اور اعمال واخلاق کو اپنا نصب العین بنائے ، 
شاید یہی وجہ ہے کہ متقین کی مخصوص صفات بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے، اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یعنی یہی لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے رب کی طرف سے ملی ہے اور یہی لوگ ہیں پورے کامیاب،
متقین کی صفات جو ان دو آیتوں میں بیان ہوئی ہیں ان میں ایمان کی اجمالی تعریف اور اس کے بنیادی اصول بھی آگئے ہیں ور عمل صالح کے بنیادی اصول بھی اس لئے ان صفات کو ذرا وضاحت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے



                           www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk

Read More
© Life 4 Islam All rights reserved | Designed By Blogger Templates